مصنف: رینڈی ایلکورن ( Author: Randy Alcorn )
مترجم: گوہر الماس ( Translator: Gohar Almas )
ایک شخص نے مجھ سے پوچھا ، "میں اکثر یہ بات سنتا ہوں کہ "میں خداوند سے ملنے کے لئے تیار ہونا چاہتا ہوں۔" کیا آپ میرے لیے براہ مہربانی اس کی وضاحت کر سکتے ہیں؟
سب سے پہلے اور سب سے اہم بات یہ کہ خداوند سے ملنے کے لئے تیار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے یسوع مسیح کے ساتھ اپنے تعلقات کو یقینی بنایا ہو ، اور آپ صرف اسی پر بھروسہ کرتے ہوں کہ آپ کو آپ کے اچھے اعمال یا کوئ اور چیز نہیں بچائے گی ، بلکہ صرف خداوند آپ کو یقینا بچاۓ گا۔ آر. اے ٹورے اس طرح لکھتے ہیں کہ "میں آج رات خدا سے آمنے سامنے ملنے کے لیے تیار ہوں۔ کیونکہ میرے سارے گناہ کفارے والے خون سے ڈھکے ہوئے ہیں۔
کہ اگر تُو اپنی زبان سے یِسُوع کے خُداوند ہونے کا اِقرار کرے اور اپنے دِل سے اِیمان لائے کہ خُدا نے اُسے مُردوں میں سے جِلایا تو نِجات پائے گا۔ رومیوں باب 10 آیت 9
یسوع کہتا ہے
مَیں تُم سے سَچ کہتا ہُوں کہ جو میرا کلام سُنتا اور میرے بھیجنے والے کا یقِین کرتا ہے ہمیشہ کی زِندگی اُس کی ہے اور اُس پر سزا کا حُکم نہِیں ہوتا بلکہ وہ مَوت سے نِکل کر زِندگی مَیں داخِل ہوگیا ہے۔ یوحنا باب 5 آیت 24
ایک بار جب آپ مسیح کو اپنے خداوند اور نجات دہندہ کے طور پر قبول کر لیتے ہیں تو خداوند سے ملنے کے لئے تیارہونے کا مطلب ہوتا ہے اس طرح سے زندگی جینا جس سے خدا خوش ہو تاکہ جب بھی وہ آپ کو گھر بلائے تو آپ اپنے لیے اس کی یہ آواز سن سکیں کہ ، " میرااچھا ، نیک اور وفادار بندہ
کلام مقدس واضح وضاحت کے ساتھ یہ تعلیم دیتا ہے کہ مسیح میں شامل تمام ایماندار اپنے رب کو اپنی زندگی کا حساب دیں گے۔ (رومیوں باب 14 آیات 10 تا 12)
یہاں تک کہ اگر مسیح کی آمد ثانی دو سو سال تک نہیں بھی آتی ، تو بھی ہم اپنی موت کے بعد اس سے ملیں گے ، خواہ بیس سالوں بعد یا بیس ماہ بعد یا صرف بیس منٹ بعد۔
خدا ہمیں حوصلہ دیتا ہے تاکہ ہم جلد ہی اس کے سامنے کھڑے ہونے کے لئے اپنی حاضری کے بارے میں حیرت کا اظہار نہ کریں۔ اگر ہم مسیح سے ملنے کے لئے تیار ہیں تو ہم اس کی جلد واپسی کے خواہش مند ہونگے۔ اگر ہم تیار نہیں تو ہم اس سے خوفزدہ ہو نگے۔ اگر ہم محسوس کرتے ہیں خدا سے ملنے کے لئے ہماری تیاری نہیں ہے تو اب وقت ہے کہ ہم تیار ہوجائیں۔
میری کتابوں کا مطالعہ کرنے والے میری اس تاکید سے شاید واقف ہوں گے کہ ہمارے مرنے کے پانچ منٹ بعد ہمیں پتہ چل جاتا ہے کہ ہمیں کس طرح زندگی گزارنی چاہیے تھی۔ لیکن ہم یہاں زندگی دوبارہ نہیں جی سکتے۔ ایک بار جب ہم اس میں ناکام ہوجاتے ہیں تو پھر کوئی راستہ اختیار کرنے کا وقت نہیں ملتا۔ اس میں امتحانات کی طرح نتیجہ بہتر کرنے کا دوبارہ موقع نہیں ملتا۔ موت آخری تاریخ ہے۔ اس میں کوئی توسیع نہیں ہے۔
خوشخبری یہ ہے کہ ہمیں اس وقت تک کا انتظار نہیں کرنا کہ وفات پا جائیں اور تب ہم جان سکیں کہ ہمیں کیسے زندہ رہنا چاہئے۔ خدا نے ہمیں اپنا کلام دیا ہے کہ وہ ہمیں بتائے کہ ہم نے کس طرح جینا ہے اور اس نے ہمیں اپنا روح دیا ہے تاکہ وہ ہمیں جینے کے لئے بااختیار بنائے گا۔
کِیُونکہ اُس کی اِلٰہی قُدرت نے وہ سب چِیزیں جو زِندگی اور دِینداری سے مُتعلِق ہیں ہمیں اُس کی پہچان کے وسِیلہ سے عِنایت کِیں جِس نے ہم کو اپنے خاص جلال اور نیکی کے ذرِیعہ سے بُلایا۔
دوسرا پطرس باب 1 آیت 3
ہر دن خدا ہمیں مسیح کے لیے جینے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
اِسی واسطے ہم یہ حَوصلہ رکھتے ہیں کہ وطن میں ہوں خواہ جلاوطن اُس کو خُوش کریں۔
دوسرا کُرنتھِیوں باب 5 آیت 9
اگر ہم اس کے فرزند ہیں تو خدا ہمارے ساتھ ہے ، ہمارے خلاف نہیں (رومیوں 8: 31) اس نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ ہمارے نام کتاب حیات میں لکھے گئے ہیں ، اور ہمیں عظیم سفید تخت کی عدالت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ وہ مسیح کی انصاف کی نشست پر ہماری تعریف کرنا اور انعام دینا چاہتا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ ہماری زندگی کے کام دھوئیں کی طرح اڑ جائیں۔ وہ چاہتا ہے کہ ہمارے پاس ابدی اجر ہو۔ اور اس نے ہمیں مسیح میں روحانی زندگی گزارنے کے لئے ہمیں ہر وسیلہ دیا ہے جس کا نتیجہ ابدی اجر کی صورت میں ہوگا۔ "دیکھ مَیں جلد آنے والا ہُوں اور ہر ایک کے کام کے مُوافِق دینے کے لِئے اجر میرے پاس ہے۔" (مکاشفہ 22: 12)
پَس اَے بھائِیو! اپنے بُلاوے اور برگُزِیدگی کو ثابِت کرنے کی زِیادہ کوشِش کرو کِیُونکہ اَیسے کرو گے تو کبھی ٹھوکر نہ کھاؤ گے۔
بلکہ اِس سے تُم ہمارے خُداوند اور مُنّجی یِسُوع مسِیح کی ابدی بادشاہی میں بڑی عِزّت کے ساتھ داخِل کِئے جاؤ گے۔
دوسرا پطرس باب 1 آیات 10 اور 11
یہ مقدسین کے لئے کتنی مضبوط اور حوصلہ افزا بات ہے جو اگلے وقت کی تیاری کے لئے اس زندگی میں قربانی دیتے ہیں!
جنت میں ان کا ایک زبردست خیرمقدم کرنے کے لیے گروہ انتظار کر رہی ہے اور دل سے کہہ رہی ہے ۔۔ شاباش
لیکن یہ الفاظ "اگریا توپھر"شرط کے طور پر نہیں ہیں اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اگر ہم پطرس کے مشورے پر عمل نہیں کرتے ہیں ، تو جب ہم جنت میں داخل ہوں گے تو ہمیں وہاں کا زبردست خیرمقدم نہیں ملے گا۔
میری کتاب دی پیوریٹی پرنسپل میں ، میں نے ذکر کیا کہ کئ سال پہلے مجھ سے ایک عورت نے رابطہ کیا جس نے مجھے بتایا تھا کہ ایک سال قبل اس کا شوہراس کے پاس آیا اور اس نے اسے بتایا کہ ساتھ کام کرنے والی ایک عورت کی طرف وہ کشش رکھتا ہے اور اس کا اعتراف آنسوؤں سے کیا۔وہ مستقل آزمائش میں رہا اور اس نے خود کو پھسلتے ہوئے محسوس کیا۔ اس نے اپنے آپ کو اس رشتے سے دستبردار ہونے کا عزم کیا اور اپنی بیوی سے اس کو سمجھنے اور دعا کرنے کا کہا۔
وہ مستقل آزمائش میں رہا اور اس نے خود کو پھسلتے ہوئے محسوس کیا۔ اس نے اپنے آپ کو اس رشتے سے دستبردار کرنے کا عزم کیا اور اپنی بیوی سے اس کو سمجھنے اور دعا کرنے کا کہا۔
اس عورت کو تکلیف پہنچی تھی لیکن اس نے محسوس کیا کہ اسے خود سے رنجیدہ ہونے کی بجائے اپنے شوہر کی مدد کرنے کی ضرورت ہے۔
نتیجہ کیا نکلا؟ نہ صرف وہ دوسری عورت پیچھے ہٹ گیا ، بلکہ اپنی اہلیہ کی مدد سے وہ پہلے سے کہیں زیادہ ایک دوسرے کے قریب آگئے۔ آنسوؤں سے اس نے مجھ سے کہا ، "دو ماہ قبل میرے شوہر کا انتقال ہوگیا۔ اگر وہ اس رات مجھ سے وفادار نہ ہوتا تو اس عورت کے ساتھ اس کا رشتہ چلتا رہتا اور شائد مجھے چھوڑ دیتا۔ وہ خدا سے ملنے کے لئے بے چینی سے مرجاتا ، اور میں اس کے معاملے پر غمزدہ رہ کر اپنی باقی زندگی گزار دیتی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ مجھ سے آخری الفاظ جو اس نے کہے وہ یہ تھے کہ ‘میں تم سے پیار کرتا ہوں ، اور میں جانتی ہوں کہ یہ سچ تھا کہ کیونکہ اس نے اپنے عمل سے اسے ثابت کیا۔ میں ہر روز خدا کا شکر ادا کرتی ہوں کہ اسکے خدا اور مجھ سے محبت کرنے پر میں اس کے بارے پورے احترام اور تعریف کے ساتھ سوچتی ہوں کہ وہ اپنی جدوجہد کے بارے میں مخلص تھا۔
یہ شخص اپنے نجات دہندہ سے ملنے کے لئے تیار تھا کیونکہ اس نے اپنا راستہ بدلا اور مختلف انتخاباب کیے جن سے جب اس کے پاس ابھی وقت تھا تو اس نے خداوند اور اپنی بیوی دونوں کوعزت دی۔ "آؤ ہم بھی ہر ایک بوجھ اور اُس گُناہ کو جو ہمیں آسانی سے اُلجھا لیتا ہے دور کر کے اُس دوڑ میں صبر سے دُوڑیں جو ہمیں درپیش ہے۔ " عبرانیوں باب 12 آیت 1
لہذا خدا کے فرزند کی حیثیت سے آپ کو کس ذاتی ، روحانی ، اخلاقی اور مالی تبدیلیاں کرنے کی ضرورت ہے؟ تاکہ آپ اپنی کارکردگی کے حساب سے خدا سے روبرو مل سکیں اور خدا آپ سے کہے شاباش
اب خُدا اِطمینان کا چشمہ جو بھیڑوں کے بڑے چرواہے یعنی ہمارے خُداوند یِسُوع کو ابدی عہد کے خُون کے باعِث مُردوں میں سے زِندہ کر کے اُٹھا لایا۔
تُم کو ہر نیک بات میں کامِل کرے تاکہ تُم اُس کی مرضی پُوری کرو اور جو کُچھ اُس کے نزدِیک پسندِیدہ ہے یِسُوع مسِیح کے وسِیلہ سے ہم میں پَیدا کرے جِس کی تمجِید ابدُالآباد ہوتی رہے۔ آمِین۔
عبرانیوں باب 13 آیات 20 اور 21
What Does It Mean to Be Ready to Meet the Lord?
A reader asked me, “I often hear the saying ‘I want to be ready to meet my Lord.’ Can you explain what exactly you mean by this, please?”
First of all, and most importantly, being ready to meet the Lord means you’ve made sure of your relationship with Jesus Christ, and are trusting only Him to save you—not anyone or anything else, and certainly not any good works you’ve done. R. A. Torrey put it this way: “I am ready to meet God face to face tonight…for all my sins are covered by the atoning blood.”
Romans 10:9 says, “If you confess with your mouth Jesus as Lord, and believe in your heart that God raised Him from the dead, you will be saved.” And in John 5:24 Jesus tells us, “Whoever hears my word and believes Him who sent me has eternal life and will not be condemned; he has crossed over from death to life.”
Once you’ve accepted Christ as your Lord and Savior, being ready to meet the Lord means living in a way that pleases Him so that whenever He calls you home—and knowing that could be any time—you can hear Him say, “Well done, good and faithful servant!”
Scripture teaches with unmistakable clarity that all believers in Christ will give an account of their lives to their Lord (Romans 14:10-12). Even if Christ does not return for two hundred years, we will meet Him in our deaths, whether in twenty years, twenty months, or twenty minutes. God encourages us not to be surprised about the soon coming of our appointment to stand before Him. If we are ready to meet Christ, we will long for His return. If we are not ready, we will dread it. If we do not feel ready to meet Him, now is the time to get ready.
Readers of my books are probably familiar with my emphasis on how five minutes after we die, we’ll know exactly how we should have lived. But we can’t do life here over again. There’s no retaking the course once we’ve failed it. There’s no improving a D to an A. No rescheduling the final exams. Death is the deadline. There’s no extension.
The good news is we don’t have to wait until we die to know how we should live! God has given us His Word to tell us how to live and His indwelling Spirit to empower us to live as we should. “His divine power has given us everything we need for a godly life through our knowledge of him who called us by his own glory and goodness” (2 Peter 1:3, NIV). Every day God gives us is an opportunity to live for Christ: “So whether we are at home or away, we make it our aim to please him” (2 Corinthians 5:9).
If we are His children, God is for us, not against us (Romans 8:31). He has assured us our names are written in the Book of Life, and we won’t face the Great White Throne Judgment. He wants to commend and reward us at the judgment seat of Christ. He doesn’t want the works of our lifetime to go up in smoke. He wants us to have eternal rewards—and He has given us every resource in Christ to live the godly life that will result in those eternal rewards. “Look, I am coming soon! My reward is with me, and I will give to each person according to what they have done” (Revelation 22:12).
Peter says, “If you do these things, [then] you will never fall, and you will receive a rich welcome into the eternal kingdom of our Lord and Savior Jesus Christ” (2 Peter 1:10-11). What a powerful encouragement this is to saints who sacrifice in this life to prepare for the next! In Heaven a great welcoming committee awaits them and a hearty “Well done!” But this isn’t automatic—the conditional “if, then” makes it clear that if we don’t do what Peter prescribed, then we won’t receive this rich welcome when we enter Heaven.
In my book The Purity Principle, I share how years ago I was approached by a woman who told me that a year earlier her husband had come to her in tears, confessing his attraction to a coworker. He was under constant temptation and felt himself slipping. He committed himself to back off from the relationship and asked his wife to understand and pray for him. She was hurt but realized she needed to help him rather than feel sorry for herself.
The result? Not only did he back off, but through his wife’s support they drew closer together than ever. In tears she told me, “Two months ago my husband died without warning. If he hadn’t been honest with me that night, he would have had an affair with that woman—and likely would have left me. He would have died unready to meet God, and I would have lived the rest of my life grieving over his affair. But that isn’t what happened. His last words to me were, ‘I love you,’ and I know it was true—he’d proven it by his actions. I thank God every day that I think of him with complete respect and admiration for loving God and me enough to be honest about his struggles.”
This man was ready to meet His Savior because he changed course and made different choices that honored both His Lord and his wife, while he still had the time to do so. “Let us throw off everything that hinders and the sin that so easily entangles, and let us run with perseverance the race marked out for us” (Hebrews 12:1). Sin entangles our feet, puts us out of the competition, and results in losing the race and the prize. So as God’s child, what personal, spiritual, moral, and financial changes do you need to make to get ready to give Him a face-to-face account of your job performance, and to hear “well done”?
“Now may the God of peace who brought again from the dead our Lord Jesus, the great shepherd of the sheep, by the blood of the eternal covenant, equip you with everything good that you may do his will, working in us that which is pleasing in his sight, through Jesus Christ, to whom be glory forever and ever. Amen.” (Hebrews 13:20-21)
Photo by lucas Favre on Unsplash